زندگی بہت چھوٹی ہے

– ایک ہنسی مزاح سے بھرپور سچائی پر مبنی رہنما کتابچہ

جب بھی میں یہ چار الفاظ بولتا ہوں — زندگی بہت چھوٹی ہے — لوگ ایسے ردِعمل دیتے ہیں جیسے میں نے ان کے سامنے ہسپتال کی رپورٹ کھول دی ہو۔ نہ صرف بھنویں اٹھتی ہیں بلکہ کچھ تو ایسے گھورتے ہیں جیسے میں ان کا لائف انشورنس چھیننے آیا ہوں۔

ردِعمل کچھ یوں ہوتے ہیں:

  • “اللہ آپ کو لمبی عمر دے۔”
  • “تمہیں کیا پتہ تم کب مرو گے؟”
  • “منحوس باتیں مت کرو۔”
  • “ہمدردی بٹورنے کا نیا طریقہ ہے؟”
  • “کیا بےوقوفی کی بات ہے۔”
  • “ہاں ہاں، اور کچھ؟”

لیکن جناب! میں منحوس نہیں، حقیقت پسند ہوں۔ بلکہ اگر گہرائی میں جائیں تو میں خوش فہم ہوں۔
میرے لیے زندگی بہت چھوٹی ہے کا مطلب ہے “ہمت کرو، جاگو، اور جیو!”
یہ کوئی “ہمت ہار جاؤ” والا پیغام نہیں، یہ “چائے بنا لو، مہمان آ گئے ہیں” والا ویک اپ کال ہے۔

یہ مطلب ہے: خوب جیو، خوب ہنسو، اور وہ قیمتی برتن صرف مہمانوں کے لیے مت رکھو — کیونکہ شاید وہ مہمان کبھی نہ آئیں۔ اور اگر آ بھی گئے تو تم خود تھکے ہارے پرانے چمچوں جیسے نہ لگو۔

حقیقت پسندی میں چھپی خوش فہمی

چلیں بات صاف کرتے ہیں: زندگی بہت چھوٹی ہے کہنے کا مطلب موت کا اعلان نہیں، بلکہ زندگی کی اپ گریڈ ہے۔
اور یہ میں کسی کتاب سے پڑھ کر نہیں کہہ رہا، یہ میں نے خود اپنی زندگی کے زخموں سے سیکھا ہے — کہ جو لوگ کہتے ہیں “اِک دن، کبھی، بعد میں” وہ اکثر بعد میں ہی رہ جاتے ہیں۔

وہ لوگ آپ نے بھی دیکھے ہوں گے:

  • “ریٹائرمنٹ کے بعد…”
  • “جب بچے بڑے ہو جائیں…”
  • “بس یہ ایک کام مکمل کر لوں…”
  • “اگلے سال سہی…”

اور اگلے سال آتا ہے تو ساتھ جوڑوں کا درد، سفید بال، اور بلڈ پریشر بھی لے آتا ہے۔

تو کیا کہنے کی کوشش کر رہا ہوں؟

  • جی بھر کے جیو۔
  • جتنی فرصت ہے، انجوائے کرو۔
  • دل کھول کے ہنسو، پیٹ بھر کے کھاؤ، اور ڈانس ایسا کرو جیسے کوئی نہ دیکھ رہا ہو (چاہے لوگ دیکھ بھی رہے ہوں تو بھی!)
  • سفر کرو، چاہے اگلے محلے کی نئی چائے کی دکان ہی کیوں نہ ہو۔

کیونکہ میرے عزیز، زندگی واقعی چھوٹی ہے — اور جتنی جلدی آپ یہ مان لیتے ہیں، اتنی لمبی لگنے لگتی ہے۔

“میرے بعد میرے بچوں کے لیے” کا بخار اتاریں

ہماری سوسائٹی کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کے لیے سب کچھ بچا کے رکھتے ہیں — اور خود “بچ” جاتے ہیں۔

ذرا سنیے:

  • آپ نے انہیں زندگی دی۔
  • آپ نے انہیں پیار دیا۔
  • آپ نے تعلیم دلوائی۔

بس! کوٹہ مکمل۔

اب اُن کی باری ہے۔
انہیں خود لڑنے دیں، خود سیکھنے دیں، اور خود کمائی کی اہمیت سمجھنے دیں۔
وراثت کی پرورش کے بجائے خود مختاری سکھائیں۔

  • جو آپ کے لیے ضروری ہے وہ بچائیں۔
  • جو آپ کو خوشی دے وہ خرچ کریں۔
  • اور باقی اللہ پر چھوڑ دیں۔

کیونکہ رزق دینے والا وہ ہے، آپ نہیں۔

تعلقات بحال کریں، مگر WhatsApp کے وعدے نہیں

اپنے دوستوں سے ملیں۔
رشتے داروں سے جا کے گلے ملیں — خاص کر اُن سے جو آپ کے بچپن کی شرارتیں ابھی تک سناتے ہیں اور چائے میں اصلی الائچی ڈالتے ہیں۔

“جلدی ملاقات ہوگی” والی باتیں چھوڑیں، اور کہہ دیں “جمعہ کو چائے آپ کے ہاں”۔

ورنہ وہ جلدی کبھی نہیں آتی، اور جب آتی ہے تو کبھی “قبر پر دعا” کی صورت میں۔

اور ہاں، منفی لوگ، حسد والے رشتے دار، اور ڈرامہ پروڈیوسر دوست — ان سے بچیں۔
ذہن ایک ڈرائنگ روم ہے، کوڑا کرکٹ رکھنے کی جگہ نہیں۔

جسم ایک مشین ہے، پر جاپانی نہیں

ورزش کریں… اگر ہو سکے۔
ورنہ کم از کم ہل جل ضرور کریں، جیسے نماز کے بعد سجدہ دیر تک کریں تاکہ کمر کھل جائے۔

اپنی ٹانگوں کو استعمال کریں، ورنہ وہ کمر درد کی صورت میں بدلہ لیں گی۔

اچھا کھائیں — صرف صحت مند نہیں، بلکہ ذائقے دار بھی۔
کالوری گننے کے بجائے خوشبو سونگھیں، ذائقہ چکھیں، اور مزہ لیں۔

اور خدارا، 18 گھنٹے کی ڈیوٹی کو فخر مت سمجھیں۔
یہ تمغہ نہیں، الٹی گنتی ہے۔

مزے کے کام کریں، چاہے فیل ہی کیوں نہ ہوں

وہ پرانا شوق دوبارہ اٹھا لیں۔
نیا کچھ سیکھ لیں۔
برا گانا گائیں۔ بدصورت تصویریں بنائیں۔ تجرباتی کھانا پکائیں۔

Instagram یا LinkedIn کے لائکس کے لیے نہیں،
بس اپنے دل کی خوشی کے لیے۔

اچھے نہ بھی ہوں تو کیا؟
ایک ناکام گلوکار جو خوش ہو، اس افسردہ ڈاکٹر سے ہزار درجے بہتر ہے جو صرف نوٹس بنا رہا ہو۔

حدیں بنائیں — اور ان پر بورڈ لگا دیں

آپ زندگی کے اتنے مراحل گزار چکے ہیں کہ کسی کی مفت کاؤنسلنگ، مفت مشورہ، مفت جج بننا آپ کی ڈیفالٹ پوزیشن بن چکی ہے۔

بس بہت ہو گیا۔ ریٹائر ہو جائیں۔

ہر لڑائی نہیں سلجھانی۔
ہر رشتہ نہیں بچانا۔
ہر ڈرامہ آپ کے صحن میں پیش نہیں ہونا چاہیے۔

اگر کوئی اپنی ٹینشن لے کر آ رہا ہے، تو اُسے ادب سے کہیں: “بھائی، اگلی گلی میں ڈاکٹر فل رہتے ہیں۔”

جو دل میں ہو، وہ پلیٹ میں رکھیں — خاص طور پر کھانے کے بارے میں

اپنی رائے دیں — سچ، نرمی سے، لیکن دوٹوک۔

بریانی اچھی نہیں لگی؟
کہہ دیں۔
کسی کی کمپنی دماغی بخار بن گئی ہے؟
فاصلہ رکھیں۔

یہ بدتمیزی نہیں،
یہ آزادی ہے۔

خاموشی سونا ہے،
لیکن سچائی پلاٹینم ہے — تھوڑا مہنگا مگر قیمتی۔

واپس کچھ لوٹائیں، خواہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو

آپ نے زندگی دیکھی ہے،
سبق سیکھے ہیں،
اب یہ بانٹنے کا وقت ہے۔

کسی کو سکھائیں،
وقت دیں،
مشورہ دیں — بس وہ جس نے مانگا ہو!

دنیا بدلنے کے لیے لاکھوں فالورز نہیں چاہییں۔
کبھی کسی کو صرف ایک اچھی بات کہہ دینا بھی انقلاب ہوتا ہے۔

ہنسی میں چھپا فلسفہ

زندگی ویسے بھی ایک کامیڈی ہے —
کبھی دل جلاتی،
کبھی ہنسا ہنسا کے رولاتی۔

تو ہنسیں!
خود پر، حالات پر، اور ان باتوں پر جو پہلے غصہ دلاتی تھیں، اب صرف “ارے چھوڑو نا” کہلوانا چاہتی ہیں۔

بوڑھے ہونا برا نہیں،
تلخ ہونا برا ہے۔

چاکلیٹ خریدیں، رنگ برنگے کپڑے پہنیں،
اور وہ پرانی فلمیں دیکھیں جو آپ کو لگتا ہے صرف بچے پسند کرتے ہیں۔

اختتامی بات (لیکن ابھی مرنے کا کوئی ارادہ نہیں)

اگر کچھ یاد رکھنا ہے، تو بس یہ:

  • زندگی کو ملتوی نہ کریں۔
  • گھڑی ٹک ٹک کر رہی ہے، چاہے آپ سنیں یا نہیں۔
  • خود کو ان لوگوں کو سمجھانے میں وقت نہ ضائع کریں جو آپ کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔
  • کامل حالات کا انتظار نہ کریں۔
  • کسی اور کی فہرست پر نہ چلیں۔
  • اور سب سے بڑھ کر — اگر آپ کو امن، خوشی، اور چاکلیٹ کیک چاہیے…
    تو کسی سے اجازت مت لیں۔

کیونکہ سچ یہی ہے —
زندگی بہت چھوٹی ہے… تو اسے مزے دار بنائیں! 🍰

2 thoughts on “زندگی بہت چھوٹی ہے”

  1. Totally agreed to the contents of this blog be positive and enjoy life. Essence is happiness- achieve it.

  2. Pingback: کام اور زندگی کا توازن: ایک خوبصورت فریب یا کارپوریٹ دھوکہ؟ - Mansoor Masood

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top